مندرجات کا رخ کریں

انڈس کوہستانی زبان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

انڈس کوہستانی زبان کا لسانی تعلق:

[ترمیم]

مایون/مایا/کِھلچا   ، انڈس کوہستانی

لسانی تعلق: ہندیورپی← ہندایرانی←ہندآرہائی←شمال مغربی گروہ←داردی لسانی گروہ←کوہستانی لسانی گروہ←انڈس کوہستانی

لسانی علاقہ: ضلع لوئر کوہستان: دریائے سندھ کے مغربی علاقے بنکھڈ، دُبیر، پٹن، ججیال، کیال

ضلع اپر کوہستان: دریائے سندھ کے مغربی علاقے  سیؤ، رزقہ اور تمام   کھندیا وادی

موجودہ تعداد:  279079 سے زائد (ِ2017ء)

انڈس کوہستانی زبان داردی لسانی گروہ کی کوہستانی ذیلی شاخ سے تعلق رکھتی ہے جو ضلع لوئر کوہستان اور اپر کوہستان میں وادی کھندیا، سیؤ اور رزکہ کے علاقہ میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کے بولنے والوں کی ایک چھوٹی بستی کھندیا سے ملحق علاقہ تانگر میں پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر بدرس مرحوم نے اس زبان پر کام کیا ہے اور اسے کھنوالی کا نام دیا ہے۔ اس زبان کو ڈاکٹر لٹنر (1893ء) نے “Shuthun”،  ماہر لسانیات گریرسن  (1928ء)نے “Maiya” اور جناب Fussman  (1989ء) نے “Maiyan” کا نام دیا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی دور میں یہ زبان یہاں کے ایک بڑے قبیلے ”منی“ کی مناسبت سے ”منِیا“ یا ”مایاں“ کہلاتی رہی ہو۔ آج کل مقامی سطح پر اس زبان کو لہجوں کے اعتبار سے کھلوچی/کھلچیا، پٹونڅی اور دوبیری کا علاقائی نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس زبان کا اپنا کوئی محفوظ اور مخصوص نام نہ ہونے کی وجہ سے جدید محققین نے اس زُبان کو انڈس کوہستانی کا نام دیا ہے تا کہ کوہستانی زبانوں کے ذیلی گروہ میں اسے توروالی اور گاؤری زبان سے الگ شناخت کیا جا سکے۔ اس زبان کے بولنے والوں کی ایک محدود تعداد ان کوہستانیوں کی بھی ہے جو قدیم وقتوں میں وادی دوبیر سے نقل مکانی کے بعد جموں کشمیر میں جا کر آباد ہو گئے تھے۔

 یہ شینا کوہستانی، بٹیڑی، گباری اور چھلسیو کی ہمسایہ زبان ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ لُغوی  اشتراک پایا جاتا ہے۔ اس زبان میں بہت کم تحریری مواد پایا جاتا۔ اس زُبان میں قرآن مجید کی تفسیر مولانا غلام عیسی مرحوم کئی سال پہلے شائع چکے ہیں۔  اس زبان کا ایک ابتدائی قاعدہ جناب م ش راشید ، ایک کہاؤتوں اور چالیس حدیثوں کا کتابچہ جناب طالب جان آباسندھی نے شائع کیا ہے۔  لسانیات کے ماہر جناب کلاؤس پیٹر زولر نے اس زبان کا ایک اعلی لغت شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایس آئی ایل نے بھی اس زبان پر تحقیقی مواد شائع کیا ہے۔ اس زبان  میں روایتی لوک ادب اور لوک شاعری کی کئی اصناف پائی جاتی ہیں۔ اس میں ریڈیائی پروگرام بھی نشر ہو رہے ہیں۔ شینا کوہستانی اور انڈس کوہستانی زبان کے بیچ دریائے سندھ واقع ہے تا ہم تجارتی مراکز کمیلا، پٹن، پالس، ججیال اور دُبیر میں دونوں زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں اور مقامی لوگوں کی رابطہ کی زبانیں ہیں۔ [رازول کوہستانی]

لسانی علاقہ:

[ترمیم]
  • ضلع لوئر کوہستان: دریائے سندھ کے مغربی علاقے بنکھڈ، دُبیر، پٹن، ججیال، کیال
  • ضلع اپر کوہستان: دریائے سندھ کے مغربی علاقے سیؤ، رزقہ اور کھندیا وادی۔

اس کے علاوہ کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پہ انڈس کوہستانی بولنے والوں کی قابل ذکر آبادی موجود ہے۔

  • سوات: کالام، بحرین، گل کدہ
  • بونیر: ملک پور
  • شانگلہ: شنگ
  • کشمیر: سرینگر
  • مانسہرہ: اوگی

زبان والوں کی موجودہ تعداد:

[ترمیم]

279079 تک (ِ2017)

دوسرے نام

[ترمیم]

اباسندھ کوہستانی، اباسیْن کوہستانی، کوستَیں، کِھلچو/کِھلوچی ، پَٹونْچی، دُبیری

اباسندھ کوہستانی زبان میں غیر مطبوعہ ابتدائی کام قاعدے کی شکل میں مولاناسید عبد الحق شاہ مرحوم نے 1930 کی دہائی کے اخیر میں کیا جس کے کچھ حصے آج بھی دستیاب ہیں۔مطبوعہ کام میں قرآن مجید کی تفسیر مولانا غلام عیسی مرحوم کئی سال پہلے لکھ چکے ہیں۔ایک ابتدائی قاعدہ جناب م ش راشد اور ایک کہاؤتوں کی کتاب جناب طالب جان آباسندھی نے مرتب اور شائع کی ہے تاہم بہت کم تحریری مواد پایا جاتا ہے۔انگریزی زُبان میں اس کی ایک اہم لُغت جناب کلوز پیٹر زولر نے شائع کی ہے۔ (رازول کوہستانی)

اس زبان میں میں روایتی لوک ادب اور لوک شاعری کی کئی اصناف پائی جاتی ہیں۔ مشہور شعرا میں رضول مولوی اور حاجی سید اعظم شامل ہیں۔ پچھلے کئی برس سے اس زبان میں ریڈیائی پروگرام بھی نشر ہو رہے ہیں۔ شینا کوہستانی اور انڈس کوہستانی زبان کے بیچ دریائے سندھ واقع ہے تا ہم تجارتی مراکز کمیلا، پٹن، پالس، ججیال اور دُبیر میں دونوں زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں اس لیے لسانی اشتراک میں کافی تنوع پایا جاتا ہے۔ (رازول کوہستانی)

فقرہ کی ساخت

[ترمیم]

اُردو زبان کی طرح اباسندھ کوہستانی صرف و نحو میں فقرہ کی ساخت فاعل-مفعول-فعل انداز میں ہوتی ہے۔ مثلاً فقرہ مہ چائے پوم تُھو یعنی میں چائے پیتا ہوں۔

بولیاں

[ترمیم]

بنیادی طور پر اس زبان کے دو لہجے ہیں ٭منی ٭منذری